اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس میں مزید 1600 مکانات کی تعمیر کی منظوری کوعرب ممالک کی اسرائیل سے ملی بھگت اور فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے بے سود مذاکرات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ منگل کے روز دمشق میں حماس کے دفترسے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ اسرائیل نے 1600 مکانات کی تعمیر کی منظوری ایک ایسے وقت میں دی ہے جبکہ قابض اسرائیل نے اس فیصلے سے ایک ہی روز قبل مغربی کنارے میں 112 مکانات کی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں تواترکے ساتھ یہودی آبادیوں کو وسعت دینےکا فیصلہ محمود عباس کے اسرائیل کے ساتھ امریکی خواہش پر مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ محمود عباس اسرائیل سے مذاکرات نہیں کر رہے بلکہ وہ امریکا کی خواہش پر اسرائیل کی بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری ،اسلامی مقدسات پرحملوں اور اسرائیلی مظالم کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ طور پر بعض عرب ممالک کی حمایت، امریکا کی خواہش اور اسرائیل کی مرضی کے تحت ہورہے ہیں جن کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہودی آبادیوں میں توسیع کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن بھی مقبوضہ فلسطین میں موجود ہیں۔ ایسے میں امریکا کی خاموشی یہودی آباد کاری پر اس کی منافقانہ پالیسی کا مظہر ہے۔ امریکی عہدیدار کی فلسطین میں موجودگی کے باوجود اسرائیل کا یہودی آبادیوں کو توسیع دینے کا اعلان اس امر کا بین ثبوت ہے کہ امریکا فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کے بجائے اسرائیل کے ناجائز تسلط کی حمایت کر رہا ہے۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری اور مقدسات پرصہیونی حملوں کو امریکا کی کھلی حمایت حاصل ہے۔ حماس نے فلسطینی صدر محمود عباس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے قوم کی بنیادی حقوق اور مزاحمت کی حمایت کی جنگ لڑیں۔ ان کے اسرائیل سے مذاکرات کے نتیجے میں فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے کے بجائے انہیں ان حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے